بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || صہیونی تجزیہ کاروں کے نزدیک جنگِ غزہ کا خاتمہ غاصب ریاست کے لئے ایک ایک "تزویراتی شکست (Strategic defeat)" ہے۔
اسرائیلی اور امریکی ذرائع جیسے ہاآرتص، یروشلم پوسٹ، سابق فوجی اہلکاروں اور تھنک ٹینکس کے مطابق، حالیہ جنگ بندی کو اسرائیل کے لئے ایک "تزویراتی شکست" ہے۔ عبرانی زبان کے نیٹ ورک "کان" کے نامہ نگار کا اعتراف ہے کہ "حماس نے شکست نہیں کھائی اور نہ ہی اس نے ہتھیار ڈالے... جنگ ایک معاہدے کے ساتھ ختم ہوئی ہے"۔ صہیونی میڈیا نے بھی اسے "اسرائیل کی شکست" اور "حماس کی فتح" قرار دیا ہے۔
شکست کے پانچ اہم دلائل
صہیونی تجزیہ کاروں نے اس تزویراتی ناکامی کو درج ذیل وجوہات سے مستند کیا ہے:
1۔ حماس کو ختم کرنے میں مکمل ناکامی:
اگرچہ وزیراعظم نیتن یاہو کا اعلان کردہ بنیادی مقصد "حماس کا مکمل خاتمہ" تھا، تاہم جنگ بندی کے معاہدے نے حماس کو "ایک سیاسی و عسکری قوت کے طور پر زندہ اور اس کا پرچم غزہ میں لہراتا ہؤا چھوڑ دیا ہے"۔
2۔ فلسطینی اسیروں کی رہائی ایک "تزویراتی تاوان":
معاہدے کے تحت ہزاروں فلسطینی اسیروں کی رہائی کے بدلے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کو اسرائیلی تجزیہ کار "تزویراتی تاوان (یا ہرجانہ)" قرار دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ معاملہ اسرائیل کی سلامتی کو کمزور کرتا ہے اور "مستقبل میں مزید تصادم کا باعث" بنے گا۔
3۔ عسکری کامیابیوں کا تزویراتی فائدے میں نہ بدل پانا:
اسرائیلی تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فوجی کارروائیوں کے باوجود، "تزویراتی طور پر پائیدار فائدہ حاصل نہیں ہو سکا"۔ ان کا ماننا ہے کہ غزہ کا انتظامی کنٹرول مستقبل میں بھی حماس کے اثر و رسوخ میں رہے گا، جس سے اسرائیل پر "مزید وسیع خطرہ" پیدا ہوگا۔
4۔ اسرائیلی قیدیوں کو زور زبردستی آزاد نہ کرا پانا:
اسرائیلی فوج کا "جدید ترین وسائل کے باوجود دو سال میں اپنے قیدیوں کو طاقت کے ذریعے آزاد نہ کرا پانا" اور آخرکار جنگ بندی پر مجبور ہونا صہیونی حلقوں میں "فوجی اور سلامتی کی طاقت کے لئے ذلت" کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
5۔ نیتن یاہو کی سیاسی ناکامی:
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو "ڈونلڈ ٹرمپ کے دباؤ اور عوامی غم و غصے" کے آگے جھک گیا ہے۔ اس کے اتحادی اس معاہدے کو "ہتھیار ڈالنے" کے مترادف قرار دے رہے ہیں، جس سے نیتن یاہو کی سیاسی پوزیشن مزید کمزور ہوئی ہے۔
نتیجہ
مجموعی طور پر، صہیونی تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ معاہدہ "نہ صرف ایک عسکری بلکہ نظریاتی شکست" ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اسرائیل اپنی "تسدیدی صلاحیت (Deterrence) اور فوجی اثر" بحال نہیں کر سکا، جبکہ "حماس مقاومت کی علامت کے طور پر بدستور قائم ہے"۔ ان کے نزدیک غزہ "ناکام تزویراتی منصوبوں کا قبرستان" بن چکا ہے، جہاں اسرائیل نے بھاری انسانی و سیاسی قیمت ادا کی ہے اور اس کو کوئی حقیقی فتح حاصل نہیں ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلخیص و ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ